یہ کوئی راز کی بات نہیں کہ اکثر انسانی حقوق کا سب سے اہم پہلو مذہب ہوتا ہے جیسا کہ لیری کاکس نے ہا ل ہی میں ا و پن گلوبل رایئٹس میں ا پنی گفتگو سے ظا ہر کیا۔ لیکن کیا مذ ہب اور انسانی حقوق دونوں کو واقعی، ایک دوسرے کی ضرورت ہے؟ جیسا کہ انہوں نے تجویز کیا۔ بےشک تاریخ کی بڑی بڑی انسانی حقوق کی تحریکیں انصاف اور مساوات کے مذہبی نظریات سے متاثردکھائی دیتیں ہیں لیکن مذہب اور انسانی حقوق کو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کرنا کچھ لوگوں کے لیے ،خاص طور پر خواتین، جنسی اور مذہبی اقلیتوں کے لئے ،انتہائی مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔
اگرچہ کاکس نے دلیل دی کہ مذہب کی بنیاد پر کی جانے والی کوشیشیں جابرانہ سیاسی حکومتوں کو کمزور کرنے میں ایک اہم قوت ہیں لیکن بھارتی اور پاکستانی سیاق و سباق میں خواتین کی تحریکوں کا ایک سیکولر پلیٹ فارم سے تعلق ر ہا ہے اور ا نہو ں نے مذہب اور ریاست کے معاملات کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچنا ضروری سمجھا ہے۔ دراصل دونوں ممالک میں عورتوں کی تحریکیں مذہب اور حکومت کو یکجا کیے جانے کے خطرات سے اگاہ ہیں . کیونکہ رائج تشریحات عام طور پر طاقتور (مرد) گروہوں کے مفادات میں ہوتے ہیں۔ بھارت ،ایک سیکولر ریاست میں ہر مذ ہب کا ا یک ا لگ خا ندانی قانون موجود ہے جو بذات خود ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ یہ مذہبی کمیونیٹیز کی تنظیم ، تقسیم اور پیچیدگی سے انکار کرتا ہے۔ مسلم پرسنل لاء کی صورت میں ، عورتیں شادی اور طلاقکے معاملات میں ایک خاص نقصان میں ہیں . جنسی اقلیتوں کے خلاف ‘ ہم جنس پرستی کے جرم میں دفعہ 377 کی حالیہ بحالی بنیادی طور پر مذہبی قدامت پسند گروپوں کی طرف سے دباؤ کا نتیجہ ہے جو کے مختلف مذہبی جما عتوں کے با ہمی تعاون کی ایک نایاب مثال ہے ۔
پاکستان کے تناظر میں ‘ جہاں اسلام سرکاری مذہب ہے ضیاء الحق کی حکومت کے تحت بہت سے قوانین مذہبی بنیادوں پر متعارف کرواے گئے۔ ان قوانین میں حدود آرڈیننس بھی شامل ہے، جس کے تحت عدالت میں خواتین کی عصمت دری کو ثابت کرنا تقریبا ناممکن بنا دیا گیا کیونکہ اس کے لیے چار مرد گواہوں کی گواہی کی ضرورت تھی۔ مزید براں قانون شہادت کے تحت تمام خواتین اور غیر مسلم مردوں کی گواہی ایک مسلمان مرد کی گواہی کے نصف کے برابر قرار دے دی گئ۔ حدود آرڈیننس میں کسی حد تک اصلاح کی گئی ہے تاہم خواتین کے حقوق آج بھی ڈگمگا رہے ہیں کیونکہ مذہبی قدامت پسند گروپ قانون سازی میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر گھریلو تشدد بل کئ سالوں کی جدوجہد کے باوجود منظور نہیں کیا گیا ہے کیونکہ مذہبی گروہ اسے اپنی خاندانی اقدار پر حملہ تصور کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ پاکستان میں جنسی اقلیتوں کے حقوق کے سلسلے میں بھی کم پیش رفت ہوئی ہے۔ ابھی تک کوئی LGBT تحریک ابھر کر سامنے نہیں آئی۔ دراصل جون 2011 میں، امریکی سفارت خانے میں ہونے والی“گے پرائڈ“ تقریب کو کئ مذہبی جما عتوں کی طرف سے "ثقافتی دہشت گردی" کا نام دیا گیا اور پرزور احتجاج کیا گیا۔ جس سے ہمیں ایسی تحریک کے خلا ف ہونے والے ردعمل کا اندازہ ہوتا ہے۔
مذہب اور ریاست کا مجموعہ بھارت اور پاکستان دونوں میں مذہبی اقلیتی گروپوں کے لئے انتہائی نقصان دہ رہا ہے۔ بھارت میں ہندو قوم پرست تحریک جو بھارت کوایک ہندو ملک سمجھتی ہے ‘ مسلمانوں اور عیسائیوں سمیت اقلیتوں کے ارکان کے لئے غیر معمولی منفی نتائج کے ساتھ بلند ہو رہی ہیں۔ اس تحریک نے فرقہ وارانہ تشدد سے لے کر بابری مسجد کی تباہی اور اس کے بعد ہونے والے 1992-1993 کے فسادات ‘ 2002 ء میں مسلمانوں کے خلاف گجرات میں منظم قتل عام ‘اور اگست اور ستمبر 2013 میں مظفر نگر میں پرتشدد جھڑپوں جیسے ہولناک مناظر کو جنم دیا ہے۔
پاکستان میں ، قومی ریاست کے ساتھ مذہب کی ملاوٹ مذہبی اقلیتی گروپوں کے لئے بہت نقصان دہ رہی ہے۔ 1949 میں اسلامی ریاست کے طور پر پاکستانی ریاست کی سرکاری شناخت خود کار طریقے سے ریاست میں موجود غیر مسلموں کو دوسرے درجے کے شہری کی حیثییت دے گئ۔ اس طرح کے سیا سی اقدامات نے مذہبی اقلیتوں کے خلاف تشدد کی بے شمار اقساط کے لئے خاموش جواز فراہم کیا ہے۔ توہین رسالت کی سزا موت ہے ‘ اور یہ عیسائیوں پر انفرادی اور اجتمائی دونوں طرح سے حملے کے مترادف ہے۔ مثال کے طور پر لاہور میں بادامی باغ کا مکمل طور پر جلایا جانا۔ 1974 ء میں احمدی کمیونٹی کو قانونی طور پر "غیر مسلم" قرار دینے کے ساتھ ریاست اور اسلامی گروپوں کی طرف سے "مسلم" کی تعریف کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ‘ اس کا دائرہ آہستہ آہستہ تنگ سے تنگ تر ہوتا چلا گیا۔ " سچے مسلمان " کی وضاحت کرنے کی اس جدوجہد کا نتیجہ ملک بھر میں فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہے۔ ملک بھر میں شیعہ افراد کی
ٹارگٹ کلنگ ، اور کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر حملے ، حالیہ برسوں میں اس طرح کے تشدد کی بدترین مثالیں ہیں-
Pakistani Hazara community known as Shiite community hold placards as they take part in a rally on January 22, 2014, in Islamabad, Pakistan, Sajjad Ali Qureshi/Demotix. All Rights Reserved.
بھارتی اور پاکستانی سیاق و سباق میں انسانی حقوق کے لیے سیکولر نقطہ نظر کی نفی کرنا بہت خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ کاکس کہتے ہیں کہ انسانی حقوق کی تحریکوں کی حمایت کے لئے مذہب کی طاقت کا استعمال کرنا چاہئے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کس مزہب کو استعمال کیا جائے؟ اور اس مذہب کی کس تشریح کو ترجیح دی جائے؟ کثیر مذہبی معاشروں میں مذہب کا ایک متحرک قوت کے طور پر استعمال کا مطلب اقلیتی مذہبی کمیونٹیز کو معاشرے سے خارج کرنا ہے۔ مزید براں یہ ایک مذہبی کمیونٹی کے اندر موجود اختلافات سے انکار بھی ہے۔ بھارت، جہاں ہندو اکثریت میں ہیں ‘ میں خواتین کی تحریک کی طرف سےمذہبی علامت جیسا کہ “دیوی کالی“ کے استعمال نیں غیر ہندو خواتین کو تحر یک سےعلیحدہ کیا ہے۔ پاکستان ‘ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے‘ میں انصاف اور مساوات کے اسلامی خیالات کی اپیل کا مطلب اقلیتی کمیونٹی کی خواتین کا اخراج بھی ہے۔
اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ دنیا کے تمام مذاہب وقار، مساوات، اور انصاف کے ساتھ منسلک ہیں لیکن ان تصورات کی تشریح اور مذہبی روایات کے درمیان بہت اختلاف ہے۔ اس کے علاوہ ہر مذہب میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہے جو انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ یہاں تک کہ دنیا کے بڑے مذاہب کی سب سے ترقی پسند تشریحات بھی کچھ حقوق خاص طور پر جنس اور جنسیت کے بارے میں ایک حد پرآ کر رک جاتی ہیں ۔ لہذا،اگرچہ مذاہب سے انسانی حقوق پر زور دینے والے نقاط کواپنے مفاد کے لیے استعمال کرنا بہت پرکشش دکھتا ہے لیکن ایسا کرنے میں خطرہ بھی اتنا ہی بڑا ہے۔
بہرحال ہمیں انسانی حقوق کے حصول کے لئے حوصلہ افزا قوت کے طور پر مذہب کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے، اور نہ ہی ہمیں لوگوں کو اپنے مذہبی عقائد کا اظہار کرنے کے حق سے محروم کرنا چاہئے، بشرطیکہ ان کا یہ اظہار دوسروں کو ان کے حقوق سے محروم نہ کر دے۔ تاہم ذاتی طور پر ایک مذہب سے ترغیب لینے ‘ جو کہ ایک طقتور ترغیب ہے ‘ اور کسی تحریک کو مذہب کے ساتھ و منسلک کرنے میں بہت فرق ہے۔ کیونکہ یہ مذہب کے دائرے سے باہر کے لوگوں کو نزرانداز کرتا ہے اور بنیاد پرست مذہبی تشریحات کے لئے جگہ فراہم کرتا ہے۔ .
انسانی حقوق کے کارکنوں کو صرف یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ انسانی حقوق کا تحفظ اہم ہے۔ کاکس کے خیال میں انسانی حقوق میں مذہب کو شامل کرنا چاہیے جو کہ پرکشش لگ سکتا ہے اور انسانی حقوق کی تحر یک میں جان بھی ڈال سکتا ہے ۔ لیکن مذہب کو اس بحث میں ڈالنا بہت خطرناک ہے۔ خواتین اور دیگر اقلیتوں کے لئے یہ یقینن زندگی اور موت کا مسئلہ بن سکتا ہے۔